آنا کا بت

میں نے آنا کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا- ویسے ہی جیسے شیطان کے بارے میں سنا اور اس سے نفرت کے اظہر بھی سن رکھے تھے- مجھے شیطان کے بارے میں بہت کچھ پتا تھا بلکہ بہت دفعہ مل بھی چکا تھا- رب نے حضرت آدم(علیہ السلام) اور حضرت آدم(علیہ السلام) کی اولاد کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا یعنی سب سے اعلی مخلوق تمام مادی اور غیر مادی مخلوقوں میں، کیونکہ رب نے انسانوں میں اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھیجنا تھا- رب نے اپنے محبوب سے محبت کرنے والوں کے امتحان لینے کے لیے اپنے سب سے اعلی فریشتے ابلیس کو لگا دیا جو اپنا کام بڑی زمیداری سے کرتا ہے اور ہر وقت انجام دیتا ہے- مگر انسان کو شیطان سے زیادہ انسان میں وجود آنا سے خطرہ رہتا ہے جس کی حفاظت انسان خود کرتا ہے بلکہ انسان انا کے بت کو کھیلتا اور پیلاتا رہتا ہے- میں اس بت کو دیکھنے کے لے بہت سارے درباروں پر گیا اور بابوں سے ملا تاکہ میں بت شکن بن سکو مگر کسی نے کوئی مدد نہ کی، بلکہ اپنے دربار سے نکال دیا- مجھے اس بت کو دیکھنے کی طلب بھی بہت تھی-

ایک دن میری ملاقات ایک امیر آدمی سے ملاقات سے ہوئی اور میں نے اس سے انا کے بت کا پتہ معلوم کیا- وہ تھوڑا سا مسکرا کر بولا میں ایک مالدار انسان ہوں جس کی وجہ سے غرور اور اپنی ہر بات منوانے کی کوشش میں رہتا ہوں- یعنی کہ اپنی ہر بات منوانے کی کوشش کرتے رہنے والا انا کے بت کی پرستش کر رہا ہوتا ہے- انا کے بت کی پرستش کرنے والے کی سب سے بڑی نشانی غسہ ہے- جس کا استعمال انا پراست بہت زیادہ کرتا ہے-

وہ امیر آدمی مجھے کسی بابے سے کم نہ لگا- میں نے اسے انا کے بت کو توڑنے کا طریقہ پوچھ تو امیر بابا جی نے کہا، اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنی ذات سے غسہ نکال کر محبت بھر لے-

میں نے کہا، محبت کیسے بھر لے؟

امیر بابا نے کہا، سب کو اس کی علم اور سمجھ کے حساب سے آزادی اتا کردے- آزادی میں محبت اور محبت میں انا کے بت شکنی ہے-

میں امیر بابا کا شکریہ ادا کر کے گھر آ گیا- اور ساری رات امیر بابا کی بات پر غور کرتا رہا- آج امیر بابا نے مجھے تو بدل دیا مگر دوسرے لوگوں کے آنا کے بت دیکھنے کا طریقہ بھی بتا دیا جس کی وجہ سے اب رب کی مخلوق کو انا کے بت کی پرستش کرتے دیکھ کر بہت تکلیف سے گزار رہا ہوں-

یا الله! حضرت آدم(علیہ السلام) کے صدقے اور اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صدقے اپنے مخلوق کو آنا کے بتوں سے آزاد فرما دے اور بت شیکن بنا دے- امین!

خاموش مسافر – ٢٢-٠٢-٢٠١٦

Leave a comment